چاہتا ہوں اب میں ظلم پر بھی کتابیں لکھوں خود کو کبھی اتنا برہم نہیں دیکھا میں نے

 مُردہ ضمیری پہ ماتم نہیں دیکھا میں نے

سانحہ ہے پر کہیں غم نہیں دیکھا میں نے


ہوتے ہیں احباب اک دوجے کے غم میں شریک

کوئی یہاں چشمِ پُرنم نہیں دیکھا میں نے


تیری رگوں میں جو غیرت کی علامت تھا! اُس

لہو میں اب وہ تلاطم نہیں دیکھا میں نے


اپنی بھی اجرت جو مزدور کے درجہ پہ لے 

اِس جہاں میں ایسا حاکم نہیں دیکھا میں نے


جیتے جی جنت میں موسٰیؑ کا پڑوسی جو ہو

ایسا ماں کا کوئی خادم نہیں دیکھا میں نے


چاہتا ہوں اب میں ظلم پر بھی کتابیں لکھوں

خود کو کبھی اتنا برہم نہیں دیکھا میں نے


بقلم ✏ماہر شاکر



Comments

Popular posts from this blog

سنو جاناں!!!!

ردیف، قافیہ، بندش، خیال، لفظ گری۔۔۔