تمہارے لیے
تمہارے لئے۔۔۔
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقی ء گلفام
وہ عکس_ رخ یار سے لہکے ہوءے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام۔۔۔
امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گۓ درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر۔۔۔
پھر دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوۓ دن بھی
جب فکر دل و جاں میں فغاں بھول گئ ہے
ہر شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لو تیر سی سینے میں لگی ہے۔۔۔
تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دل زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردن مہتاب میں باہیں۔۔۔
اس جان جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی کبھی رو رو کے پکارا
پورے کئے سب حرف تمنا کے تقاضے
ہر درد کو اجیالا ، ہر غم کو سنوارا۔۔۔
واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریت جاں، راحت تن، صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل حوس کی۔۔۔
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
ا_س عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت۔۔۔
Comments
Post a Comment