رنگ پھیکا ہی سہی ، رنگ ہے بہانہ دل کا
رنگ پھیکا ہی سہی رنگ ہے بہانہ دل کا
روز ہم دل سے ہی سنتے ہیں فسانہ دل کا
ہاۓ وہ پہلی محبت وہ جلانا دل کا
دل کو منظور نہیں پھر سے لگانا دل کا
بے سبب لڑنا جھگڑنا وہ اس کی یادوں سے
بے سبب روٹھنا دل سے وہ منانا دل کا
دو گھڑی پاس رکو آج انا رہنے دو
جی میں آیا یے تجھے حال بتانا دل کا
اس کے چہرے سے چھلکتی ہوئی مستی دیکھی
ٹھیک دل پہ تھا لگا آج نشانہ دل کا
میں نے سیکھا ہی اسی شخص پہ قناعت کرنا
اس کے پہلو میں ہی رکھ دیتا ہوں دانہ دل کا
روز کوئی نہ کوئی مل کے بچھڑ جاتا ہے
مجھ کو آتا ہی نہیں خون رلانا دل کا
پھر کسی راگ پہ سرمست ہوا چاہتا ہے
پھر کسی راگ پہ یوں جلنا جلانا دل کا
اب تو یہ طے ہے کہ جینا ہے تیری یاد کے ساتھ
اب تو یہ طے ہے نہیں کوئی ٹھکانہ دل کا
آجکل سنتا ہوں اس شوخ کے ہیں شوق دو تین
توڑنا دل کا رلانا و ستانا دل کا
خواب میں جانچنے آیا تھا طبیعت عامر
نبض دیکھی مری پر روگ نہ جانا دل کا
Comments
Post a Comment